4 رمضان المبارک اسلامی تاریخ کے آئینے میں پیش آنے والے چند اہم واقعات

 4 رمضان المبارک اسلامی تاریخ کے آئینے میں پیش آنے والے چند اہم واقعات

تاریخ میں 4 رمضان کا دن کئی اہم واقعات کا حامل ہے۔ تاریخی محقق اور "تراثیات" ویب سائٹ کے ایڈیٹر وسیم عفیفی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ان میں نمایاں ترین واقعات میں حضرت حمزہ کی قیادت میں مسلمانوں کے پہلے دستے کی روانگی ، انطاکیہ شہر کا صلیبیوں سے واپس لیا جانا ، مصری فوج کے کمانڈر احمد عرابی کی معزولی اور مصری قومی رہ نما مصطفی کامل کی پیدائش شامل ہے۔

پہلا دستہ اور پرچم
ہجرت کے پہلے سال 4 رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں لڑنے کے لیے 30 مہاجرین پر مشتمل پہلا دستہ روانہ کیا۔ پہلی مرتبہ اسلامی پرچم بلند ہوا جس کا رنگ سفید تھا۔ اس کو حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھی حضرت ابو مرثد كناز بن الحصين الغنوی رضی اللہ عنہ نے تھاما ہوا تھا۔ مذکورہ دستے کو شام سے مکہ مکرمہ واپس آنے والے قریش کے ایک تجارتی قافلے کا راستہ روکنا تھا۔ اس قافلے کی قیادت ابو جہل کے سپرد تھی جب کہ 300 گُھڑ سوار اس کا پہرہ دے رہے تھے۔ اس سے قبل کہ مسلمان اور قریش کے کفار کے درمیان خون ریز جھڑپوں کا آغاز ہوتا جُہینہ قبیلے کے بڑے عمائدین نے امن کے وساطت کار کے طور پر مداخلت کر دی۔ اس دوران ان عمائدین نے فریقین کے ساتھ براہ راست بات چیت کے کئی دور منعقد کیے اور بالآخر اپنی پر امن کوششوں میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح فریقین بنا لڑائی کے اپنے مقام پر واپس چلے گئے۔ کفار کے کیمپ پر اِس سَرِیّہ کا بہت بُرا اثر پڑا اور قریش کے لوگوں کے دلوں پر ایک رعب بیٹھ گیا۔ دوسری جانب مسلمانوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ ان کی خود اعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ان کے اندر عزم سے بھرپور روح بھر گئی۔

انطاکیہ کی واپسی
چار رمضان 666 ہجری مطابق 25 مئی 1268ء کو انطاکیہ شہر مملوکی سپہ سالار ظاہر بیبرس کے ہاتھوں واپس لے لیا گیا۔ موجودہ ترکی کے اس شہر کو خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں معرکہ یرموک کے بعد فتح کیا گیا تھا۔ اس معرکے کی قیادت صحابی رسول حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ انطاکیہ 491 ہجری تک مسلمانوں کے زیر کنٹرول رہا۔ بعد ازاں اسلامی ریاست پر صلیبی یلغار کا آغاز ہوا تو یہ پہلا شہر تھا جو صلیبیوں کے قبضے میں گیا۔ انطاکیہ شہر تقریبا 170 برس صلیبیوں کے قبضے میں رہا یہاں تک کہ 658 ہجری میں ظاہر بیبرس نے مملوکی سلطنت سنبھالی۔ مصر کے اقتدار کا عرش سنبھالتے ہی بیبرس نے صلیبیوں کے خلاف عسکری کوششیں کا آغاز کر دیا۔ اس نے انطاکیہ پر بھرپور حملہ کیا اور اس کو فتح کر لیا۔ اس طرح یہ تاریخی شہر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے پاس آ گیا۔

مصطفی کامل کی پیدائش
سن 1874 میں 4 رمضان کو مصری قومی رہ نما مصطفی کامل کی پیدائش ہوئی۔ اُن کے والد نے جو مصری فوج میں افسر تھے ، بچپن سے ہی کامل کے اندر جب الوطنی کا بیج بو دیا۔

مصطفی کامل 1891 میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک مؤقر ادارے میں داخل ہوئے۔ اس دوران انہوں نے فرانسیسی زبان میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ 1893 میں کامل مصر سے کوچ کر گئے اور فرانس میں قانون کی درس گاہ سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس دوران انہوں نے ایک اسٹیج ڈرامہ "فتح الاندلس" (اندلس کی فتح) تحریر کیا جو پہلا مصری اسٹیج ڈرامہ شمار کیا جاتا ہے۔

کامل مصطفی مصر لوٹے جہاں ان کو شہرت حاصل ہوئی اور صحافت کے اُفق پر اُن کا ستارہ چمکنے لگا۔ سال 1906ء میں دنشوای کے علاقے میں برطانوی فوجی افسران اور مقامی مصریوں کے درمیان پیش آنے والے واقعے کے بعد.. مصطفی کامل نے اکتوبر 1907 میں اسکندریہ شہر میں ایک پُرجوش خطبہ دیا۔ اس خطبے میں انہوں نے "الحزب الوطنی المصری" کے نام سے ایک جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ جماعت کا سیاسی پروگرام کئی امور پر مشتمل تھا جن میں مصر کی خود مختاری کا مطالبہ ، حکومت پر پارلیمانی نگرانی کا ضامن آئین ، تعلیم کو عام کرنا اور قومی شعور کی آگاہی پھیلانا اہم ترین امور تھے۔ مصطفی کامل 10 فروری 1908 کو 34 برس کی عمر میں فوت ہو گئے۔

مصطفى كامل
الخدیوی نے عرابی کو معزول کر دیا
سن 1882ء میں 4 رمضان کو مصر میں علوی خاندان کے چھٹے حکم راں الخدیوی توفیق نے مصری فوج کے کمانڈر احمد عرابی کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیا تھا۔ اس سے قبل الخدیوی نے احمد عرابی کو یہ فرمان بھیجا تھا کہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام جنگی تیاریوں کو روک دیں۔ عرابی نے الخدیوی کے شرم ناک موقف کو ماننے سے انکار کر دیا۔ عرابی نے پورے ملک میں ٹیلی گرام بھجوائے جن میں الخدیوی پر انگریزوں کے حق میں جانب داری کا الزام عائد کیا اور الخدیوی کے احکامت کی پیروی سے خبردار کیا۔

عرابی نے ملک کی معروف شخصیات اور علماء کرام سے جلد از جلد قومی سطح پر ایک اجلاس میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا۔ 17 جولائی 1882ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں تقریبا 400 شخصیات نے شرکت کی جن میں شیخ الاِمبابی اور پادری کیرلس پنجم سرِ فہرست تھے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ الخدیوی توفیق کو دارالحکومت قاہرہ آنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں علی مبارک کی صدارت مییں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تا کہ الخدیوی کو اس فیصلے سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس فیصلے پر ردّ عمل کے طور پر الخدیوی نے اسی روز یعنی 17 جولائی 1882 مطابق 4 رمضان 1244 ہجری کو ایک بیان جاری کیا جس میں احمد عرابی کو ان کے منصب سے معزول کر کے اسکندریہ کے گورنر عمر لطفی کو اُن کی جگہ مقرر کیا۔