فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا، صدر نے آئینی ترمیم پر دستخط کردیے

فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا، صدر نے آئینی ترمیم پر دستخط کردیے
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد: صدر ممنون حسین نے آئینی ترمیم پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد قبائلی علاقے باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں۔


صدر ممنون حسین کی منظوری کے بعد  فاٹا کے عوام کو بھی ملک کے دیگر حصوں کے عوام کے مساوی آئینی حقوق حاصل ہو گئے ہیں۔

صدر مملکت نے اس موقع پر ان علاقوں کے عوام کو دلی مبارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تاریخی اقدام سے سابقہ قبائلی علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھل گئے ہیں جس سے پاکستان مضبوط ہو گا اور خطے میں استحکام پیدا ہوگا۔

آئینی ترمیم پر دستخط کے سلسلے میں جمعرات کو ایوان صدر میں سادہ مگر پر وقار تقریب ہوئی جس میں گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا، فاٹا ریفارم کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفراللہ خان بھی موجود تھے۔

آئینی ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد صدر مملکت نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دعا کی اور سابقہ قبائلی علاقوں کے عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں کا انضمام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے جسے کامیاب بنانے کے لیے پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:تحریک انصاف نے ن لیگ کی ایک اور اہم وکٹ گرا دی
 
 
فاٹا ریفارم کمیٹی ے کے سربراہ اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے اس موقع پر کہا کہ اس آئینی ترمیم کے بعد قبائلی علاقے خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں اور ان علاقوں کے عوام کو ملک کے دیگر تمام علاقوں کے مساوی حقوق حاصل ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ ایجنسیاں اضلاع میں بدل چکی ہیں جو اب مغربی اضلاع کہلائیں گی، اسی طرح اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ڈپٹی کمشنرز میں بدل گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ نئے تشکیل شدہ مغربی اضلاع کو دیگرعلاقوں کے برابر لانے کے لیے 1000 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جن میں سے 30 فیصد بلدیاتی اداروں کے ذریعے استعمال ہوں گے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان اضلاع میں تعلیم، علاج، کاروبار اور رہائش کی جدید سہولتوں کی فراہمی کے لیے کام جاری ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے امن و امان کی صورت حال مزید بہتر ہوگی اور خطے میں استحکام آئے گا، اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ نگراں اور مستقبل کی حکومتیں انہی خطوط پر کام جاری رکھیں۔