بلا عنوان

بلا عنوان

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی دینی فکر و شعور اور خدمات سے ایک زمانہ استفادہ کرتا ہے جبکہ سیاسی حوالہ سے معاملہ مختلف ہے۔ سیاسی حوالے سے مولانا کی ایک بات صرف ایک بات باقاعدہ لیکچر اور طرز زندگی ہے۔ شاید مولانا کوثر نیازی کے حوالے سے منسوب بات ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے کسی نے کہا کہ مولانا کوثر نیازی آپ کے لیے بڑی غیر اخلاقی گفتگو کرتے ہیں۔ سید صاحب نے جواب دیا کہ میں ایک شخص کی خاطر اپنی تربیت نہیں بھول سکتا۔ آج کل ہماری سیاست میں کچھ ایسے ہی حالات ہیں کہ روایات، ثقافت، شرافت، اخلاقیات اور معاشرت کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے شیخ رشید المعروف ٹلی بقول جناب چیئرمین بلاول بھٹو کے گٹر اور بقول رانا ثنا اللہ کے پنڈی کا شیطان جب میاں محمد نواز شریف کا پالتو تھا تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف ایسی واہیات گفتگو، فقرے بازی کرتا تھا کہ کوئی غیرت مند شخص سن بھی نہ سکے مگر بی بی شہید نے کبھی اس کی بکواس کا جواب نہ دیا۔ یہ شخص جب حکومت میں نہ ہو تو مسلسل اس حکومت کے جانے کی تاریخیں بتائے گا اور جب حکومت میں ہو تو علم ہونے کے باوجود کہ حکومت برباد ہو چکی اور ملک برباد کر چکی، اس کے مزید کئی دہائیاں قائم رہنے کی پیشن گوئیاں کرتا۔ اس نے کہا کہ نوازشریف، شہبازشریف اور زرداری کا اب مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔ آج اس کا کردار غائب ہے مگر چونکہ نوازشریف نے جب سے ان کے منہ کی زپ توڑی اور ان کی سونڈ میں بھری غلاظت محترمہ شہید بی بی اور مخالفین پر پھینکوانا شروع کی پھر زپ چند سال کے لیے زرداری صاحب نے بند کی مگر پھر مشرف دور میں ٹوٹ گئی۔ میڈیا بھی عوامی استحصال میں برابر کا شریک ہے ایسے لوگوں کو بلاتا ہے جو سیاسی تاش میں جوکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جھوٹ بولنا جواب میں سچ آنا اور پھر موضوع بننا جو خبروں میں رہنے کا بہترین طریقہ ہے اور موصوف یوں خبروں میں ہیں ورنہ کوئی کارکردگی، نظریہ یا کردار ایسا نہیں کہ یہ موضوع بحث ہوں۔ ابھی سابقہ حکومت کو ختم ہوئے چند ہفتے ہوئے ہیں اور وہ اقتدار کی جدائی میں اس طرح حواس باختہ ہوئے ہیں کہ مجنوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ ابھی ان کی کرپشن، ملک کی بربادیوں کی داستانیں دس فیصد بھی سامنے نہیں آئیں ابھی موجودہ حکومتی سیٹ اپ مکمل بھی نہیں ہوا اور اداروں کو دھمکیاں حتیٰ کہ بیوروکریسی کے لوگوں کو عہدوں اور ناموں سے دھمکیاں دینا شروع کر دیں جو بندوق کے نشانے پر تھا ، اپنی حکومت بچانے کے لیے اس کی منت بذریعہ ملک ریاض کے آڈیو زبان زد عام ہو گئی۔ زندگی قربان کرنا، جیل کاٹنا، مشکلات کا سامنا کرنا اور وہ بھی کسی طاقتور ادارے کی مکمل 
حمایت کے بغیر تو بہت دور کی بات یہ ایک جھڑک کی مار بھی نہ نکلے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے اسلام آباد چھوڑ کر پشاور میں جائے پناہ پائی۔ ایک صحافی کے سوال نے ایسا گھائل کیا کہ پریس کانفرنس چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دراصل کردار، گفتار اور قول و فعل میں تضاد کو جب لوگ نظر انداز کر دیں اور اندھی تقلید کریں تو پھر معاملات سنور نہیں سکتے۔ اکثر سیاسی ”تجزیہ کار“ کہتے پائے گئے کہ معاملات مکالمے کے ذریعے حل ہو سکتے تھے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ ویسے ایسی صورتحال چند سال سے ہوئی ہے۔ بہرحال اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا میرے ابا جی جناب حاجی عنایت شہزاد صاحب کے ایک دوست حافظ زکریا تھے۔ بچپن سے میرے ابا جی کے دوست تھے نو عمری میں انہوں نے کار خریدنے کا ارادہ کیا اور میرے اباجی کے پاس آئے کہ شہزاد صاحب مجھے کسی ڈرائیور کا بندوبست کر دیں اور شرط رکھی کہ ڈرائیور مسلمان ہو۔ مسلمانوں میں ان دنوں ڈرائیور بہت کم تھے، ہندو نوکری نہیں کاروبار کرتے تھے مگر حافظ صاحب کی شرط تھی کہ ڈرائیور سکھ نہ ہو۔ بہت کوشش کی ڈرائیور نہ مل سکا۔ میرے والد صاحب نے کہا، حافظ صاحب سکھ بہت دیانت دار، جانثار، وفادار اور بہترین ڈرائیور ہیں، آپ کیوں ضد کرتے ہیں کہ ڈرائیور سکھ نہ ہو۔ حافظ صاحب نے کہا کہ سکھ چونکہ اکثر شراب نوشی کے عادی ہوتے ہیں لہٰذا گاڑی ٹھوک دے گا۔ میرے ابا جی نے کہا، آپ کی بات درست ہے، آپ کو کوئی مسلمان یا کوئی اور ڈرائیور مل جاتا ہے، اگر سامنے سے سکھ ٹکرا گیا تو کیا کرو گے؟ آج کل ملکی سیاست میں روایتی سیاستدانوں کو سامنے سے سکھ ٹکرایا ہوا ہے لہٰذا آئین، قانون، پارلیمنٹ، روایات، اخلاقیات سب عشق اقتدار کے نشے میں بہہ گئے۔ ہر ادارہ اور سٹیک ہولڈر اپنی عزت کی گاڑی بچاتا پھر رہا ہے۔ وحید اختر انصاری، سعید اختر انصاری سینئر بیوروکریٹس گوجرانوالہ کے انتہائی مہذب، خوش پوش، تعلیم یافتہ، خوش گفتار ہونے کی وجہ سے حلقہ ارادت و نیابت کے لوگ باو¿ جی کہتے تھے، جناب بابو عبدالستار کے بیٹھے ہیں۔ سینئر سیکرٹری اسمبلی جناب رائے ممتاز بابر میرے دوست ہیں، پچھلے دنوں رائے صاحب کو بلاوجہ ایک مقدمہ میں دھر لیا گیا جس کی حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب نے بڑے پن کا مطاہرہ کرتے ہوئے معافی بھی مانگی اور لا علمی کا اظہار بھی کیا۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر دوبارہ اس لیے کرنا پڑی کہ ان کے ساتھ پرویز الٰہی کے اسمبلی میں زخمی ہونے کی بددعائیں دینے پر ایک واقعہ یاد آگیا۔ بلو گھنٹہ گھریا اور محمد امین مینوں پہلوان کا گوجرانوالہ چوک میں جھگڑا ہو گیا، آپس میں تعلق بھی تھا، جھگڑا ہوا تو ایک دوسرے کو گوجرانوالہ کی مخصوص مغلظات بکنا شروع کر دیں۔ احباب نے بیچ بچاؤ کرایا۔ بلو گھنٹہ گھریا حضرت داتا صاحبؒ، حضرت شہباز قلندرؒ کے درباروں کے حاضرین میں سے تھا اس نے آخری جملہ بولا، ”اچھا وئی مینوں پہلوان تینوں حضرت شہباز قلندر ای پُچھن گے“، یعنی تمہیں حضرت شہباز قلندر ہی پوچھیں گے۔ مینوں پہلوان نے بلو گھنٹہ گھریا کو گالی دی اور کہا، ”جاتے ہوئے میرا متھا شہباز قلندر نال لوا چلیا ایں“۔ جاتے ہوئے میرے مقابل شہباز قلندر لے آئے ہو۔ یہی حالت چودھری پرویز الٰہی کی تھی کہ یا اللہ میرا بدلہ تو لے۔ حمزہ شہباز نے بھی سوچا ہو گا کہ اب یہ ہمیں کس قسم کی بد دعائیں دینے پر آ گئے ہیں۔ کل گوجرانوالہ اپنے والدین اور پاءجی اعظمؒ شہید، معظم بھائی جنت مکین کے آستانوں پر حاضری دی تھی گوجرانوالہ ذہن میں رہا کچھ باتیں لکھ دیں۔ ویسے ریاست بھی ماں ہوتی ہے کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اس کا کوئی بیٹا ڈان بنے مگر جب بن جاتا ہے تو وہ خاندان کی قوت بن جاتا ہے جس کا قائم رہنا خاندان (ملک) کی بقا ہے۔ ریاست کے بیٹوں میں سے اگر کوئی ایسی حیثیت اختیار کر لے تو کیا ہو سکتا ہے؟گوجرانوالہ میں آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی پہلوان کے ڈیرے یا ڈان کے پاس کوئی فیصلہ گیا ہو تو لوگوں نے اطمینان کا اظہار نہ کیا ہو مگر ہماری سیاسی تاریخ میں تقریباً ہر فیصلے پر عوام کے تحفظات رہے ہیں اور ریاست کے بیٹوں میں سے چند ادارے سمٹ کر پورا ملک بن گئے، رب العزت وطن عزیز کی خیر کرے۔آمین

مصنف کے بارے میں