زندگی کی اصل روح

زندگی کی اصل روح

مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں۔ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کریں گے لیکن انہوں نے اِنتہائی سکون سے کھاناکھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن ۔اسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی۔ میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا۔ اس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے ان کے کمرے میں گیا تو ان سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟
انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا بیٹا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہیں۔میرے بچے یہ دنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے، میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاو¿ں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
اسی طرح ایک عابد نے خدا کی زیارت کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری 
اور راز و نیاز میں گزرتا تھا 36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی :
شام 6 بجے،تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاو¿ اور خدا کی زیارت کرو۔عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اورمارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا وہ کہتا ہے۔ ”میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی؟“اسے وہ بیچنا چاہتی تھی۔ وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا 4 ریال ملیں گے۔ وہ بڑھیا کہتی6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا۔
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔بوڑھی عورت نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال میں بیچوں گی کیا آپ چھ ریال دیں گے ؟تانبہ ساز نے پوچھا صرف چھ ریال میں کیوں؟؟؟ 
بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا!!بوڑھی عورت نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟!!! کہا ہرگز نہیں،میں واقعی پچیس ریال دوں گا یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اوربوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے !!! بوڑھی عورت، بہت حیران ہوئی دعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دکان والے سے کہا: چچا، لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدا۔ بوڑھے تانبہ ساز نے کہا: میں نے برتن نہیں خریدا ہے میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں میں نے ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے، عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا اتنے میں غیبی آواز آئی،چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا گرتوں کو تھامو اور غریب کا ہاتھ پکڑو ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے“۔

مصنف کے بارے میں