مقبوضہ کشمیرپولیس نے خواتین کے بال کاٹنے کے 92کیس درج کر دیے ہیں

مقبوضہ کشمیرپولیس نے خواتین کے بال کاٹنے کے 92کیس درج کر دیے ہیں

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے خواتین کے بال کاٹنے کے 92کیس درج کر دیے ہیں۔ پولیس نے ریاستی سرکاری انسانی حقوق کمشن میں10نکات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے بال کاٹنے کی مبینہ شکار خواتین اور انکے رشتہ داروں کی طرف سے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ عدم تعاون کی وجہ سے جانچ عمل مشکل ہو رہا ہے،اور ابھی تک کوئی بھی ٹھوس ثبوت ہاتھ نہیں لگا ہے۔ ک

کمیشن نے پولیس کو اس سلسلے میں مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی میں مجموعی طور پرخواتین کے بال کاٹنے کے حوالے سے92ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں،جن میں سب سے زیادہ کیس جنوبی ضلع کولگام کے ہیں،جن کی تعداد21 ہے جبکہ سرینگر میں ان کیسوں کی تعداد18ہے۔

ضلع گاندربل میں3،بڈگام میں11ضلع اننت ناگ میں 19 پلوامہ میں11،شوپیاں میں3،بانڈی پورہ میں2اور بارہمولہ میں3 ہیں۔پولیس رپورٹ میں کہا گیاہے کہ تمام کیسو ں کی تحقیقات جاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کیسوں کی تحقیقات کیلئے خصوصی جانچ ٹیموں کو بھی تشکیل دیا گیا ہے،جو متعلقہ اضلاع میں سنیئر افسران کی نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔

مزید کہا گیاتمام رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرلوں اور ایس ایس پیز کو خصوصی ہدایات دی گئی ہے،کہ وہ اپنے علاقوں میں ان دہشت زدہ کارروائیوں میں ملوث مجرموں کو پکڑنے کیلئے خصوصی مہم شروع کریں۔رپورٹ کے مطابق پولیس نے چوبیسوں گھنٹے گشتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور حساس علاقوں میں ناکے لگائے جا رہے ہیں۔

جبکہ شہریوں کی خدمات بھی طلب کی جا رہی ہے۔پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر ایک ضلع میں ہلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے،اور لوگوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ نقل و حرکت کے بارے میں مطلع کریں،تاکہ ان واقعات کی روک تھام کیلئے بروقت اور فوری کارروائی عمل میں لائی جائے۔

پولیس نے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے پنجاب اور ہریانہ میں پیش آئے اور بعد میں ڈوڈہ اور جموں میں بھی رونما ہوئے،اور پولیس ان واقعات کا بھی مطالعہ کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق پولیس کی طرف سے سخت اقدامات اور موثر کوششوں کے بعد بھی تا ہنوز کوئی بھی ٹھوس ثبوت ہاتھ نہیں لگا ہے،جبکہ متاثرین اور انکے رشتہ دار تعاون نہیں کر رہے ہیں،اور نہ ہی جانچ ایجنسیوں کے سامنے آرہی ہے،جس کی وجہ سے تحقیقاتی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عمل مشکل ہو رہا ہے