لوگ اچھے دنوں کے لئے ترس گئے

 لوگ اچھے دنوں کے لئے ترس گئے

اس وقت وطن عزیز میں ایک بے چینی کی لہر آئی ہوئی ہے کیونکہ ایک طرف معیشت کا برا حال ہے تو دوسری جانب مہنگائی،بے روزگاری اور نا انصافی ہے، لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں کدھر جائیں ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ اہل اختیار و اقتدار کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ وہ عوامی مسائل و مشکلات سے قطعی بے خبر ہیں انہیں عوام کی ذرا بھر پروا نہیں آئے روز وہ ٹیکسوں کی یلغار کر رہے ہیں ان کے ماتحت ادارے غریب لوگوں کی درگت بنا رہے ہیں۔  رشوت کے بغیر وہ کسی کی طرف دیکھتے تک نہیں انہیں قانون کا ڈر خوف باقی نہیں رہا۔ وہ عوام کو حقیر جانتے ہوئے ان کے ساتھ برتاو? کرتے ہیں۔ محکمہ پولیس ہو یا محکمہ مال ان کے اہکار تو چٹے دن منہ کھولے ہوئے ہیں۔ پٹواری رات گئے تک اپنی جیبیں بھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ نظام زر کب بدلے گا کون ہے جو آ کر اس سے نجات دلائے گا۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اس کو بدلے بغیر معاملات تادیر نہیں چل سکتے۔ 
احتجاج کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اہل اختیار کو اپنا خیال رکھنا ہے دوسروں کا نہیں لہٰذا ایک مایوسی ہے جو دھیرے دھیرے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے نتائج مثبت نہیں برآمد ہوں گے۔ لہٰذا ارباب حل و عقد کو چاہیے کہ وہ فی الفور اس طرف توجہ کریں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر سوچنا چاہیے کیونکہ مجموعی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جو محفوظ ہو سبھی شدید متاثر ہیں لہٰذ ا کوئی آگے آئے اور حالات کی سمت کو تبدیل کر دے مگر دور دور تک ایسا کوئی نظر نہیں آتا۔ اگرچہ عمران خان سے کچھ لوگ یہ توقع کر رہے ہیں مگر وہ تنہا سفر کے خواہشمند ہیں اس کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں وہ بس اقتدار کے حصول کے لیے ہی کوشاں ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی اپنی پٹاری میں کسی بڑی تبدیلی کا مسودہ رکھتے ہوں مگر لگتا نہیں ہے کہ وہ کوئی انقلاب برپا کر سکیں گے جو انہوں نے لانگ مارچ شروع کیا ہے مگر مجھے لگ رہا ہے اس سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ انہوں نے ہر کسی کو ناراض کر رکھا ہے۔ بہرحال دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے مگر معیشت انصاف مہنگائی بے روزگاری سینہ زوری اور قبضہ گیری کے حوالے سے انہیں آواز ضرور بلند کرنی چاہیے چاہے کوئی سنے یا نہ سنے۔ 
پچھتر برس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جاتا مگر افسوس یہاں جو بھی حکمران آیا اس نے اپنے بارے ہی سوچا خود کو مالی طور سے توانا بنایا یہی وجہ ہے کہ آج اس کے پاس ڈھیروں دولت ہے مگر ملک غریب ہو چکا ہے قرضوں پے قرضے لیے جا رہے ہیں تا کہ معیشت کی گاڑی رواں رہ سکے اس کے باوجود صورتحال گھمبیر ہوتی  جا رہی ہے سنبھالے نہیں سنبھل رہی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اہل سیاست کا آپس میں نہ مل بیٹھنا ہے۔ وہ جو سیاست کاری کر رہے ہیں عوامی مفاد میں نہیں انہیں تو اس مشکل گھڑی میں ایک ہو جانا چاہیے تھا اقتدار تو آنی جانی شے ہے یہ چند برس تو کسی کے پاس رہ سکتا ہے ہمیشہ تو نہیں مگر یہ آپس میں اس قدر گتھم گتھا ہیں یا پھر یہ دکھاوا ہے کہ عوام تقسیم رہیں اور یہ اپنی اپنی باریاں لیتے رہیں اور حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں۔ انہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی موسم ایک جیسا نہیں رہتا بدلتا رہتا ہے لہٰذا کرسی کے چکر میں نہ پڑیں عوام کے دل جیتیں اور سوچیں کہ انہیں جو عزت و احترام عوام دیتے ہیں کوئی کرسی نہیں دے سکتی۔ وہ دولت بھی کتنا ہی کیوں نہ جمع کر لیں سکون انہیں عوامی خدمت میں ہی ملے گا پھر جینے کے لیے دولت کے پہاڑ کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذ ا عام آدمی کی زندگی کو آسان اور سہل بنانے کے لیے قومی حکومت کے قیام کی طرف بڑھا جائے تا کہ یہ ملک ترقی کر سکے ہم جب مغربی اور یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں تو ان پر رشک آتا ہے وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے چکے ہیں جس میں انسانیت کی قدر کی جاتی ہے۔ کسی کو دھوکا نہیں دیا جاتا۔ ملاوٹ نہیں کی جاتی۔ کسی کا حق سلب نہیں کیا جاتا انصاف ہوتا ہے بلا تفریق اور کسی کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا جاتا۔ 
یقین کیجیے لوگ ترس گئے ہیں اچھے دنوں کے لے ان کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔منزل مراد کے حصول کے لیے انہیں اب اپنی زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگی ہیں وہ آئی ایم ایف کے قرضے اتارتے اتارتے تھک گئے ہیں ان کے کندھے جھک گئے ہیں اس کے باوجود خوشحالی کے در وا نہیں ہو رہے اورآئندہ بھی انہیں ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا مگر ہو سکتا ہے جب ان کی مایوسی آخری حد کو چھونے لگے تو وہ نعرہ مستانہ بلند کر دیں پھر اہل زر کو ہر راستہ مسدود نظر آئے گا۔ اگرچہ انہوں نے بیرونی دنیا میں اپنے لیے پر آسائش محلات تعمیر کر رکھے ہیں مگر ان میں بھی بے چین ہوں گے کیونکہ مظلوموں کی آہیں ان کا پیچھا کریں گی ان کے دماغوں کو جھنجھوڑیں گی۔ لہٰذا وہ اس وقت کو سامنے رکھیں انہیں احتساب کا بھی سامنا کرنا ہو گا کہ وہ دن بھی ضرور آئے گا۔ 
بہر کیف زندگی عام آدمی کی بے حال ہے وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے مگر اسے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی جو آتی بھی ہے وہ جلد ہی غائب ہو جاتی ہے۔ اسے ہر سمت ایک خوف پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے بھوک کا خوف حق سلبی کا خوف، نا انصافی کا خوف اور سینہ زوری کا خوف وہ ان تمام خوفوں سے محفوظ رہنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہا لہٰذا آہستہ آہستہ سہم رہا ہے اور سکڑ سمٹ رہا ہے۔ 
کہتے ہیں کہ جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ایک نیا جہان جنم لیتا ہے کہ جب بھی مشکلات کے اڑدھے نے پھنکارا تو لوگ آخر کار اسے بھگانے کے لیے اس کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ کچھ ہمیں اس وقت بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ اب جینا مشکل تر ہو گیا ہے۔قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ جو کوئی کرنا چاہتا ہے کر رہا ہے اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ راستے پر خار، خواہش بے قرار، سوچیں تشویش میں مبتلا، احساس ختم، ماحول بے کیف و بے رنگ، گلشن میں فاختہ کی آواز میں سوز نہیں اور بلبلیں اداس ہیں مگر یہ سب اسی طرح نہیں رہنے والا۔ بے شک اختیارات والے خود کو سنوارنے اور محفوظ کرنے کے لیے سو سو جتن کر رہے ہیں مگر ایک نہ ایک روز وہ ضرور بدلیں گے۔ ان کے خیالات تبدیل ہو ں گے کیونکہ عوام بدل چکے ہوں گے۔ پھر آرزوؤں کا ایک نیا جہان آباد ہو گا۔

مصنف کے بارے میں