باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی

باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی

گذشتہ دو مرتبہ کے ضمنی انتخابات جن میں پہلے پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر نواز لیگ کو صرف پانچ حلقوں سے کامیابی نصیب ہوئی جبکہ کچھ دن پہلے قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے نواز لیگ شیخوپورہ اور فیصل آباد کی دونوں سیٹیں ہار گئی۔ ہم نے اپنے کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ الیکشن میں تو فرشتے بھی ووٹ ڈال دیتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن لانگ مارچ میں انسانوں کا جو نظر آتے ہوں ان کا ہونا بہت ضروری ہے تو شہر لاہور جسے نواز لیگ کا گڑھ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصہ سے تخت لاہور بھی کہا جانے لگا تھا ہمارے خیال میں پوری نواز لیگ کو اور خاص طور پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو ناکام نہیں زبردست ناکام کرنے بلکہ تحریک انصاف کی لانگ مارچ میں ضمانت ضبط کرانے پر اہل لاہور کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ جنھوں نے لانگ مارچ کے آغاز میں ہی اس کی منجھی ٹھوکنے کا حق ادا کر دیا۔ صحافت میں جب کوئی تجزیہ کرے تو اس کے لیے اول تو اصول یہی ہے اور عقلمندی بھی یہی ہے کہ انسان بلیک اینڈ وائٹ کے بجائے گرے ایریاز میں رہے اس لیے کہ پاکستان کی سیاست کے تو اگلے پل کا نہیں پتا ہوتا چہ جائیکہ اگلے دن ہونے والے کسی سیاسی ایونٹ کے متعلق کھل کر کچھ کہہ دیا جائے اور پھر اس ماحول میں تو اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کہ جب ہواؤں کا رخ بھی مخالف ہو لیکن پھر بھی گذشتہ سے پیوستہ جمعرات 27 اکتوبر کو شائع ہونے والے اپنے کالم ”متوقع لانگ مارچ“ میں عرض کیا تھا کہ ”اسلام آباد میں دھرنا کا بھی پروگرام ہے تو قیام و طعام کا بندوبست اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے کسی اے ٹی ایم کا ہونا بھی بہت ضروری ہے اور سب سے اہم کہ لانگ مارچ کے لیے بندوں کی ایک کثیر تعداد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ خان صاحب جب لبرٹی سے لانگ مارچ لے کر نکلیں گے تو ان کے ساتھ کتنے لوگ ہوں گے لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ابھی گذشتہ جمعہ کو ہی خان صاحب کی نااہلی پر جب تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی تو اس احتجاج میں اپنی حکومتیں ہونے کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور کہیں جانا بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس احتجاج کی زبردست ناکامی کے بعد اسی رات کال واپس 
لینا پڑ گئی تو اس لانگ مارچ میں تو اپنے شہر سے سیکڑوں کلو میٹر دور اور پھر اس شہر میں داخل ہونا ہے کہ جہاّں لاٹھی گولی اور آنسو گیس سبھی کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت ایک ماہ سے تیاریاں کر رہی ہے اور رانا صاحب خود اس لانگ مارچ کا انتظار کر رہے ہیں تو اگر کہیں کسی طاقتور حلقہ سے ون ٹو کے فور کی گارنٹی نہ مل گئی ہو ورنہ اس لانگ مارچ کی ناکامی کے امکانات گذشتہ دونوں مرتبہ کے لانگ مارچ سے کہیں زیادہ ہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ خان صاحب کو کسی نہ کسی طرح فیس سیونگ دے دی جائے گی اور اس کے بعد سیاست کے تمام متحرک کردار اپنی اپنی موجودہ تنخواہوں پر کام کرتے رہیں گے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ آگے جا کر لانگ مارچ کیا شکل اختیار کرتا ہے لیکن جس میں تھوڑی سی بھی سیاسی سمجھ بوجھ ہے اسے اتنا اندازہ تو ہے کہ لاہورآبادی کے لحاظ سے پاکستان کا کراچی کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے اور اگر اس شہر سے لانگ مارچ قابل ذکر تعداد میں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں کر سکا تو اس کے بعد راستے میں آنے والے دوسرے شہر جن میں مریدکے، کامونکے، گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات، جہلم، سرائے عالمگیر، روات اور راولپنڈی تو آبادی کے لحاظ سے لاہور سے بہت چھوٹے شہر ہیں تو لاہور سے اگر لانگ مارچ کو ایک چاند نہیں مل سکا تو اس سے کہیں کم آبادی والے شہروں سے کیا اس لانگ مارچ کو چار چاند لگ جائیں گے اس کے بر عکس اس لانگ مارچ نے تو عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت کے جو ڈھول پیٹے جا رہے تھے اس مقبولیت کے سارے غباروں سے ایک ہی ہلے میں ہوا نکال کر ”چن چڑھا دیا ہے“۔ لانگ مارچ کوئی ساڑھے تین بجے عمران خان کی تقریر کے بعد لبرٹی چوک سے شروع ہو گیا تھا۔ ہم ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ پانج بجے کے قریب ہمارے ایک انتہائی محترم عزیز نے کہا کہ شاہ جی کس راستے سے گھر جانا ہے ہم نے کہا کہ جناب جس راستے سے ہر روز جاتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ آپ کمال کرتے ہیں ہم نہر سے ہوتے ہوئے مسلم ٹاؤن موڑ کے راستے جاتے ہیں تو وہاں جا کر پھنسنا ہے وہاں تو گزرنے کی جگہ نہیں ملے گی ہم نے کہا کہ جناب آپ چلیں وہ مسلم ٹاؤن موڑ ہے کوئی تحریک انصاف کے ہم خیال ٹی وی چینل نہیں کہ جہاں لاکھوں لوگ ہوں گے۔ ہمارے کہنے پر وہ اسی راستے سے چل پڑے اور جب مسلم ٹاؤن موڑ کے انڈر پاس سے گزرے تو ہم نے اچک اچک پر فیروز پور روڈ پر معمول کے مطابق چلتی ٹریفک کو بغور دیکھا اور اطمینان سے انڈر پاس سے گذر گئے۔
گھر پہنچ کر ہم نے اپنے ایک دوست کو کال کی کہ آفس سے احتیاط سے گھر آنا کیونکہ تمہارا روٹ وہی ہے۔ ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ اتنی تعداد نہیں ہو گی لیکن یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ یہ توقع سے بھی زیادہ ٹھس مارچ ہو گا۔ دوست نے سات سوا سات بجے واٹس ایپ کیا کہ وہ کلمہ چوک ٹریفک میں پھنسا ہوا ہے دس پندرہ منٹ بعد اس کی کال آئی کہ وہ گھر پہنچ گیا ہے ہمیں حیرت بھی ہوئی لیکن پوچھاکہ لانگ مارچ کا حال بتاؤ تو اس نے کہا کہ جس مارچ سے میں پندرہ منٹ میں چھ کلو میٹر کا راستہ طے کر کے گھر پہنچ گیا ہوں اس کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن ہم نے کہا کہ پھر بھی آپ کے اندازے کے مطابق کتنی تعداد ہو گی تو انھوں نے کہا کہ کلمہ چوک پر بمشکل ڈھائی سے تین ہزار افراد ہوں گے۔ اچھرہ میں ہمارے بہت اچھے دوست ہیں ہم نے ان سے فرمائش کر رکھی تھی کہ وہ ہمیں اس مارچ کی وڈیو بھیجیں گے انھیں نے ہمیں وڈیو بھیجی اور ان کے مطابق بھی اچھرہ کے استقبالی کیمپ میں ہزار کے قریب بندے تھے جبکہ مارچ کے شرکاء کی تعداد کم و بیش دو ڈھائی ہزار کے قریب تھی۔ اب ایک جگہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دو جگہ انتہائی قریبی دوستوں سے معلومات لیں اس کے بعد اب میڈیا یا کوئی بھی کچھ بھی کہتا رہے ہم اس پر کیسے یقین کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دوستوں کو ہماری باتوں پر یقین نہ آئے اس لیے کہ پروپیگنڈا اس قدر زیادہ ہے کہ سچ بات کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن ہم نے جو دیکھا اور جو سنا اسے بغیر کسی اگر مگر کے من و عن قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ دوسرے دن شاہدرہ سے بھی لانگ مارچ آدھے سے زیادہ دن گذرنے کے بعد ڈھائی تین بجے جا کر کہیں روانہ ہوا لیکن اس کے باوجود بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے جو انٹرویو یہ دیئے جا رہے ہیں انھیں سن کر اس محاورے کی صداقت پر یقین آ جاتا ہے کہ باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی۔

مصنف کے بارے میں