اقتدار کا کھیل!

 اقتدار کا کھیل!

سیاست درحقیقت اقتدار کا کھیل ہے۔ کوئی بھی شخص اقتدار کی خواہش لے کر ہی میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی کوئی فلاحی اور رفاہی تنظیمیں نہیں ہوتیں۔ ان کا  منتہائے مقصود بھی حصول اقتدار ہوا کرتا ہے۔ عوام کی خدمت، ملک کی ترقی، سماج کا سدھار وغیرہ  جیسے معاملات ضمنی باتیں ہیں۔دنیا بھر میں یہی اصول رائج ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا سیاست دان اس حقیقت سے انکاری ہو،، تو سمجھ لیجیے کہ وہ غلط بیانی کا مرتکب ہو رہا ہے۔عمومی طور پر ہر بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہوتا ہے۔ کم از کم پاکستان کی حد تک ایسا ہی ہے۔ شہباز شریف ہوں، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری یا کوئی بھی دوسری جماعت،  حصول اقتدار کی خواہش سب میں مشترک ہے۔سیاست پر نگاہ رکھنے والے آگاہ ہیں کہ کئی برس سے میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے آرزو مند تھے۔ پی۔ڈی۔ ایم کی شکل میں رنگ برنگی جماعتوں کا اکٹھ بھی حکومت بنانے کے لئے ہی تھا۔  2013  سے 2018 تک عمران خان نے بھی حصول اقتدار کی خواہش پوری کرنے کی خاطرہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ رشید، چوہدری پرویز الہیٰ، ایم۔کیو۔ایم جسے وہ منہ بھر بھر باتیں کیا کرتے تھے، ان کیساتھ دوستی کرنا پڑی۔  اب بھی وہ حصول اقتدار کے لئے ہی دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔ 
دیکھا جائے تو حصول اقتدار کی خواہش رکھنا ناجائز بات بھی نہیں ہے۔ یہ کوئی خلاف آئین یا ماورائے قانون خواہش بھی نہیں۔ کوئی سیاست دان اور سیاسی جماعت اگر اقتدار کا خواہش مند ہے تو یہ اس کا قابل جواز حق ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم سب اپنی اپنی نوکری اور کاروبار میں آگے ہی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تخت نشینی کے خواہش مند کسی سیاست دان کو مطعون کرنا قابل جواز نہیں۔ تاہم حصول اقتدار کے بھی کچھ تقاضے اور ضابطے ہوا کرتے ہیں۔کوئی شخص اقتدار حاصل کرنے کیلئے آئین و قانون کی حدود پار کرنے لگے اور قومی مفادات کو بس پشت ڈال دے تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ 
سیاسی حریفوں کو ہدف تنقید بناتے بناتے، عمران خان نے اب فوج کو بھی کسی سیاسی حریف ہی کی مانند نیزے کی نوک پر دھر لیا ہے۔ اس اہم ریاستی ادارے کے کچھ معاملات پر تنقید ماضی میں بھی ہوا کرتی تھی۔ مجھ سمیت کوئی بھی جمہوریت اور آئین پسند سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔ لیکن یہ کیا کہ اگر یہ ادارہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے تائب ہوجائے اور انہیں نہ دہرانے کا عزم باندھ لے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔محض اپنی حکومت قائم کرنے کی خاطر اسے بار بار قائل اور مائل کیا جائے کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کرئے۔آئی۔ایس۔آئی کے ڈی جی کی پریس کانفرنس کے جواب میں عمران خان نے جو لب و لہجہ اختیار کیا، اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو یا نہ ہو، بھارت کو اس کا فائدہ ضرور ہو رہا ہے۔َََََبرسوں سے ہم نے بھارت کو سب سے بڑے دشمن کا درجہ دے رکھا ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے اور نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ آج کل بھارت میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پاکستانی فوج کے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر بھارت بہت خوش ہے۔ بھارتی میڈیا عمران خان کے ان بیانات کی خصوصی کوریج کرتا ہے ٹی۔وی۔ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا میں بڑی بڑی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ایک خبر میری نگاہ سے گزری کہ بھارت کا ایک معروف وی لوگرمیجر گوروآریا، جو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے لئے مشہور ہے، نے عمران خان کو فنڈ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت میں عمران خان زندہ بادکا ٹویٹر ٹرینڈ بھی کافی مقبول ہو رہا ہے۔ اس طرح کے دیگر افسوسناک قصے میڈیا میں زیر گردش ہیں۔ 
چند ماہ پہلے اپنی تقریر میں عمران خان نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ بھارتی فوج کو سلیوٹ کرتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں ہے۔ سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ اور یہ کہ بھارت کی خارجہ پالیسی پاکستان سے بہتر ہے۔۔اس بیان کوبھی بھارتی میڈیا میں نمایاں طور پر شائع کیا گیاتھا۔ بھارت ہر پلیٹ فارم میں اس بیان کا چرچا بھی کرتا رہا۔ یہ باتیں لکھ رہی ہوں تو مجھے 2016 میں ہونے والا مشترکہ پارلیمانی سیشن یاد آرہا ہے۔ یہ سیشن کشمیری حریت رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم کے تناظر میں منعقد ہوا تھا۔ایک اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی خطاب کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کو یہ پیغام جائے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ساری پاکستانی قوم متحد ہے۔ اس وقت صرف ایک سیاسی جماعت نے اس سیشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔اس وقت بھی تحریک انصاف کے اس بائیکاٹ کی خبریں بھارت نے نمایا ں طور پر شائع کی تھیں۔بھارتی اخبارات نے لکھا کہ پاکستانی سیاستدان کشمیر کے مسئلہ پر تقسیم ہیں۔ 
نجانے ہمیں یہ دکھائی کیوں نہیں دیتا کہ ملک کی معاشی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ سیلاب کے باعث لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانی شہری مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ عوام کے ایک بڑے حصے کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں۔لوگ بجلی گیس کے بل جمع کروانے سے قاصر ہیں۔ علاج معالجے کی سکت نہی رکھتے۔ بے روزگاری، لاقانونیت کا ایک طوفان ہے جو تھمنے میں نہیں آرہا۔ ان حالات میں سیاسی احتجاج، اور ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کا عمل کسی بھی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دور ہ پاکستان منسوخ ہو گیا تھا۔پاکستان اور چین کے مابین  45  ارب ڈالر کے معاہدے تاخیر کاشکار ہو گئے تھے۔ چینی صدر شی جنگ پنگ بھارت گئے اور کئی سو ارب ڈالر کے معاہدے کر آئے۔ اب ہم پھر سے چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف یکم نومبر سے چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ سنتے ہیں کہ یہ دورہ معیشت کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔ افسوس کہ آج بھی تحریک انصاف سڑکوں پر ہے۔ سیاسی بے یقینی کی صورتحال میں کون ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرئے گا؟
کاش تمام سیاست دان اور سیاسی جماعتیں کوئی بھی بیان دینے اور کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت ملکی مفادات کو پیش نظر رکھیں۔ کاش سیاست دان اس امر کی تفہیم کر سکیں کہ اقتدار تو بس آنی جانی چیز ہے۔ اقتدار کے کھیل کے لئے قومی اورعوامی مفادات کو داو پر لگانا نہایت افسوسناک ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اس ملک کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔  دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے ملک کو ہمیشہ قائم دائم رکھے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم لکھ چکی ہوں تو ٹی۔وی پر خبر آئی ہے کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی رپورٹنگ میں مصروف چینل فائیو کی خاتون رپورٹر صدف نعیم جاں بحق ہو گئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نوجوان صدف کوریج کے دوران عمران خان کے کنٹینرکے نیچے آکر کچلی گئی۔روزنامہ نئی بات کے سینئر صحافی زاہد رفیق صاحب سے یہ سن کر دل دکھ سے بھر گیا ہے کہ صدف تین بچوں کی ماں تھی۔ اندازہ کیجئے کہ اقتدار کے اس کھیل میں ان معصوم بچوں نے عمر بھر کے لئے کیا کچھ کھو دیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک صدف کی مغفرت فرمائے اور اس ملک پر رحم فرمائے۔ آمین۔ 

مصنف کے بارے میں