حقیقی آزادی مارچ کی منزل؟

 حقیقی آزادی مارچ کی منزل؟

 تجسس زدہ،اضطراب انگیز انتظار کے بعد آخر کار تحریک انصاف کا حقیقی آزادی لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے،لبرٹی چوک لاہور سے آغاز سے اپنے پہلے پڑاؤ مزار داتا گنج بخش تک تو زندہ دلان لاہور نے لانگ مارچ کی رونق کو دوبالا کر کے اسے سند کامیابی عطا کر دی،سفر کے اختتام تک شرکاء کا جذبہ کیا ہوتا ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، راستے میں آنے والے شہروں سے نئے قافلے ساتھ ملتے جائیں گے،عوام کا موڈ بحر حال نشاندہی کر رہا ہے کہ عمران خان لاہور اور پنجاب میں بڑی سیاسی قوت ہیں،عمران خان کے بیانات، تقاریر سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ عزم صمیم کیساتھ چلے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے تاریخ کا تعین کیا ہے،ان کے ارادے مضبوط ہیں اور اس مرتبہ انہوں نے مارچ کا شیڈول بھی خفیہ رکھا ہے،ابھی تک شرکاء کو نہیں معلوم کہ اسلام آباد میں پڑاؤ کہاں اور کتنے دن کا ہو گا،حقیقی آزادی مارچ منزل پر پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوتا ہے یا کوئی نیا پروگرام دیا جاتا ہے سب بے خبر ہیں۔
 سکیورٹی خدشات اور بعض دوسرے معاملات کے سبب مارچ کا شیڈول تبدیل ہو رہا ہے، دوسری طرف رانا ثناء اللہ نے لانگ مارچ کے ”استقبال“ کا وسیع پیمانے پر انتظام کر رکھا ہے،اس بو کھلاہٹ میں اگر کوئی ایسا اقدام کیا گیا جو کسی حادثے یا سانحے کا سبب بن جائے تو عمران خان کو مزید ہمدردیاں مل جائیں گی اور ان کی مقبولیت کا گراف مزید بلند ہو جائے گا،حکومت نے عدالتی حکم کے ذریعے لانگ مارچ رکوانے کی کوشش کی مگر عدالت نے یہ کہہ کر کہ”ہمارے قلم کو اپنی لاٹھی نہ بنائیں“ کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا،حکومت کو ہدائت کی گئی کہ جہاں کوئی غیر قانونی حرکت ہو قانون حرکت میں آئے،تحریک انصاف نے بھی عدالتی سہارا لینے کی کوشش کی مگر مرضی کا حکم حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
 تحریک انصاف نے ریڈ زون سے فاصلے پر جلسہ اور دھرنے کی اجازت طلب کی مگر ضلعی انتظامیہ نے اجازت نہ دی بلکہ 25مئی کے دھرنا کے حوالے سے وضاحت طلب کر لی،حکومت کا یہ رویہ بھی غیر سیاسی اور غیر جمہوری خوف کی علامت ہے،عدالت قراردے چکی ہے کہ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے،مگر گمان اور قیاس کہ یہ ہو جائیگا یہ ہو سکتا ہے کی بنیاد پر حکومت زور زبردستی سے جمہوری احتجاج کا حق تحریک انصاف سے چھیننا چاہتی ہے،رانا ثناء اللہ دھمکیوں پردھمکیاں دے رہے ہیں،عمران خان بھی اپنے مؤقف پر ڈے ہوئے ہیں،اس انتہا پسندانہ رویے کا آخری نتیجہ”خدانخواستہ“ تصادم ہو سکتا ہے،تصادم کی صورت میں ملک میں جمہوریت کا مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے،تحریک انصاف فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے،حکومت موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے پر بضد ہے،حیرت ہوتی ہے ایک ایسی اسمبلی جس کے سوا سو ارکان استعفیٰ دے چکے ہوں اور اسمبلی اجلاسوں سے لا تعلق ہوں،جس اسمبلی میں اپوزیشن کا وجود نہ ہو جو ایک مستقل جمہوری ادارہ ہے اور آئینی طور پر اپوزیشن کی موجودگی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی اسمبلی مکمل نہیں نہ کوئی قانون سازی معتبر ہے،مگر اسمبلی میں یکطرفہ تماشا لگا ہواہے کوئی اصلاح احوال کو بھی تیار نہیں۔
 چہار جانب سے مایوس ہو کر عمران خان نے لانگ مارچ کے انتہائی اقدام کا فیصلہ کیا،اگر چہ تاخیر سے مگر وزیر اعظم (صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
شہباز شریف نے شرکاء لانگ مارچ سے مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے مگر اس کمیٹی میں رانا ثناء اللہ کی شمولیت سے اس کمیٹی کی کامیابی ابتداء سے ہی مشکوک ہے،اس حوالے سے اگر وزیر اعظم واقعی سنجیدہ ہیں اور سنجیدگی سے کسی اقدام کے خواہش مند ہیں تو کمیٹی میں جنگجو اور ایڈونچر پسند لوگوں کی جگہ سنجیدہ لوگوں کو نمائدگی دی جاتی،سیاسی ماحول مکدر ہے اور اس قدر کہ اب معتبر،مقدس اور معزز ریاستی ادارے بھی تنقید کی زد پر ہیں،شائد پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی کو یوں نیوز کانفرنس میں وضاحت دینے کیلئے آنا پڑا،یہ لمحہ فکریہ ہے،ملک کی سیاسی قیادت کو اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا،ملک دشمن قوتوں کا پہلا اور آخری ہدف پاک فوج اور نیوکلیئر پروگرام ہے اور ہم خود دشمن کو موقع دے رہے ہیں کہ اس پر تنقید کر کے خدشات کا اظہار کرے،جمہوریت دوستی یا اقتدار کی ہوس میں ملک دشمنی کسی طرح بھی قابل قبول نہیں،یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے،سیاسی قیادت ملکی مفاد،سلامتی اور بقاء کیلئے اس حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق تجویز کرے۔
 لانگ مارچ کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ایسے نہیں کہ ان پر توجہ مبذول نہ کی جائے،اس حوالے سے بھی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کو مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہو گی،جلسہ جلوس،لانگ مارچ دھرنا سیاسی جماعتوں کا آئینی حق جسے فریقین تسلیم کرتے ہیں،جب ایک بات مسلمہ ہے تو اختلاف کیسا اور لانگ مارچ روکنے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز کی کیا ضرورت؟تحریک انصاف اپنا پروگرام حکومت کو بتائے اگر حکومت اسے امن و امان یا سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک سمجھے تو تحریک انصاف کو قائل کرے دلیل کیساتھ دھونس یا زور سے نہیں، بات چیت کے ذریعے جلسہ اور دھرنے کا ایک متفقہ مقام طے کر کے حکومت بڑے پن کا ثبوت دے اور شرکاء دھرنا کو سہولت فراہم کرے،لیکن اگر دونوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو لازمی نتیجہ تصادم ہو گا،ملکی اندرونی انتظامی حالات،معاشی بحران ایسی کسی ہنگامہ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے،اس لئے فریقین صبر تحمل برداشت کا مظاہرہ کریں کچھ مانیں اور کچھ منوائیں تاکہ یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پائے۔
 قوم کا اکثریتی طبقہ اس وقت عمران خان کیساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے،اس کی بنیادی وجہ عمران خان کا بیانیہ نہیں بلکہ عوام کے دیرینہ مسائل ہیں جو پیچیدہ ہو چکے ہیں،مہنگائی کے عفریت نے قوم کے غریب تو کیا سفید پوش طبقہ کو بھی بھکاری بنا دیا ہے،15یا20ہزار میں تو اب اکیلے آدمی کا گزارہ ممکن نہیں دو چار بچوں والے خاندان کو 50سے60ہزار روپے ضروری اخراجات کیلئے چاہئے ہوتے ہیں،مگر حالت یہ ہے کہ حکومت کم سے کم تنخواہ مقرر کر دیتی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی،ایسے میں لوگ قرض لینے پر مجبور ہیں یا چوری،رشوت پر،مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو عمران خان کی شکل میں تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اس لئے وہ ان کی حمائت میں سڑکوں پر ہیں،امن و امان،پولیس کلچر،انصاف کا فقدان،منافع خور مافیا،ذخیرہ اندوزی،زور آوروں کی لوٹ مار،قبضہ گروپوں کی کارروائیاں اپنی جگہ ہیں اور سب فوری حل طلب مسائل ہیں،بد قسمتی سے ہمارے سیاسی حکمرانوں کی مہنگائی اب تک ترجیح نہیں ہے،لانگ مارچ کی کامیابی کے پیچھے بھی مہنگائی ہے اور آئندہ انتخابی نتائج بھی اسی پر منحصر ہیں،حکومت مہنگائی کے جن کو قابو کرے،ورنہ لانگ مارچ کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
محسن گورایہ

مصنف کے بارے میں